Friday 21 February 2014

کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے

کافر ہوں، سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے
میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجیے
ہے احترامِ حضرتِ انسان، میرا دِین
بے دِین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجیے
میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجیے
کرتا ہوں اہلِ جبہ و دستار سے سوال
گستاخ ہو گیا ہوں مجھے مار دیجیے
خوشبو سے میرا ربط ہے جگنو سے میرا کام
کتنا بھٹک گیا ہوں مجھے مار دیجیے
معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام
میں خواب دیکھتا ہوں مجھے مار دیجیے
زاہد! یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روِش
میں خوب جانتا ہوں مجھے مار دیجیے
بے دِین ہوں مگر ہیں زمانے میں جتنے دِین
میں سب کو مانتا ہوں مجھے مار دیجیے
پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور
میں آخری صدا ہوں، مجھے مار دیجیے
میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد میرے لیے
میں صاف دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے
یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم
کیا ظلم کر رہا ہوں مجھے مار دیجیے
میں عشق ہوں، میں امن ہوں میں علم ہوں میں خواب
اک دردِ لادوا ہوں مجھے مار دیجیے
زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار
میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے
جو زخم بانٹتے ہیں انہیں زیست پہ ہے حق
میں پھول بانٹا ہوں مجھے مار دیجیے
ہے امن شریعت تو محبت مِرا جہاد
باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے
بارُود کا نہیں، مِرا مسلک درُود ہے
میں خیر مانگتا ہوں مجھے مار دیجیے

احمد فرہاد

No comments:

Post a Comment