چاندنی، سوچ، صدا، راہگزر آوارہ
صُورتِ گردِ سفر، اہلِ سفر آوارہ
تجھ سے بِچھڑا ہوں تو لگتے ہیں مجھے اپنی طرح
یہ در و بام و دل و دیدۂ تر آوارہ
ڈوبتا دن جہاں کرنوں کے نشاں چھوڑ گیا
جسم کی قید نہیں، نوکِ سِناں پر ہی سہی
شہر در شہر پِھرے شورشِ سر، آوارہ
جب کبھی تیز ہوئی اپنے سفر کی گردش
میں نے دیکھے ہیں کئی گھومتے گھر، آوارہ
کب تلک نقشِ کفِ پائے صبا ڈھونڈیں گے
ہم بگولوں کی طرح شہر بدر، آوارہ
جب تیرا ہِجر بھی تسکیں کے بہانے ڈھونڈے
کیوں نہ ٹھہرے مِرا معیارِ نظر آوارہ
گھر سے نکلو کہ یہی رسمِ جہاں ہے محسنٖؔ
بے ہُنر گوشہ نشیں، اہلِ ہُنر آوارہ
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment