Tuesday 18 February 2014

اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں

اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
لمحہ بھر کے لیے ہی سہی اُس کو بھلا کر دیکھیں
شہر میں جشنِ شبِ قدر کی ساعت آئی
آج ہم بھی تیرے مِلنے کی دُعا کو دیکھیں
آندھیوں سے جو اُلجھنے کی کسک رکھتے ہیں
اِک دِیا تیز ہَوا میں بھی جلا کر دیکھیں
کچھ تو آوارہ ہواؤں کی تھکن ختم کریں
اپنے قدموں کے نشاں آپ مِٹا کر دیکھیں
زندگی اب تجھے دیکھیں بھی تو دَم گُھٹتا ہے
ہم نے چاہا تھا کبھی تجھ سے وفا کر کے دیکھیں
جن کے ذروں میں خزاں ہانپ کے سو جاتی ہے
ایسی قبروں پہ کوئی پھول سجا کر دیکھیں
دیکھنا ہو تو محبت کے عزاداروں کو
ناشناسائی کی دیوار گِرا کر دیکھیں
یوں بھی دنیا ہمیں مقروض کیے رکھتی ہے
دستِ قاتِل تِرا احساں بھی اُٹھا کر دیکھیں
رونے والوں کے تو ہمدرد بہت ہیں محسنؔ
ہنستے ہنستے بھی دنیا کو رُلا کر دیکھیں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment