اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
لمحہ بھر کے لیے ہی سہی اُس کو بھلا کر دیکھیں
شہر میں جشنِ شبِ قدر کی ساعت آئی
آج ہم بھی تیرے مِلنے کی دُعا کو دیکھیں
آندھیوں سے جو اُلجھنے کی کسک رکھتے ہیں
کچھ تو آوارہ ہواؤں کی تھکن ختم کریں
اپنے قدموں کے نشاں آپ مِٹا کر دیکھیں
زندگی اب تجھے دیکھیں بھی تو دَم گُھٹتا ہے
ہم نے چاہا تھا کبھی تجھ سے وفا کر کے دیکھیں
جن کے ذروں میں خزاں ہانپ کے سو جاتی ہے
ایسی قبروں پہ کوئی پھول سجا کر دیکھیں
دیکھنا ہو تو محبت کے عزاداروں کو
ناشناسائی کی دیوار گِرا کر دیکھیں
یوں بھی دنیا ہمیں مقروض کیے رکھتی ہے
دستِ قاتِل تِرا احساں بھی اُٹھا کر دیکھیں
رونے والوں کے تو ہمدرد بہت ہیں محسنؔ
ہنستے ہنستے بھی دنیا کو رُلا کر دیکھیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment