Tuesday 18 February 2014

چھونے سے قبل رنگ کے پیکر پگھل گئے

چھونے سے قبل رنگ کے پیکر پِگھل گئے
مٹھی میں آ نہ پائے کہ جگنو نکل گئے
پھیلے ہوئے تھے جاگتی نیندوں کے سلسلے
آنکھیں کھلیں تو رات کے منظر بدل گئے
کب حدتِ گلاب پہ حرف آنے پائے گا
تتلی کے پَر اڑان کی گرمی سے جل گئے
آگے تو صرف ریت کے دریا دکھائی دیں
کن بستیوں کی سمت مسافر نکل گئے؟
پھر چاندنی کے دام میں آنے کو تھے گلاب
صد شکر نیند کھونے سے پہلے سنبھل گئے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment