Saturday 22 February 2014

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

گلی گلی مِری یاد بِچھی ہے پیارے رَستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دُور نکل
ایک سَمے تِرا پُھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دُکھ کے کانٹوں کا جنگل
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تُو خاموش کھڑا تھا، لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
میں تو ایک نئی دنیا کی دُھن میں بھٹکتا پِھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نِبھے گی ایک ہیں تیرے فکروعمل
میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں، ساتھ مِرے چلنا ہو تو چل

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment