Tuesday 18 February 2014

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ

ہر آشنا میں کہاں خوئے مِحرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
تیرے بھی رنگ نہیں گردشِ زمانہ وہ
اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ
یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ گیا یاد کیا دلانا وہ
اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگار خانہ وہ
فراز خواب سے غفلت دکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ

احمد فراز

No comments:

Post a Comment