Wednesday, 26 February 2014

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے

فن کار

میں نے جو گِیت تِرے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
آج دُکان پہ نیلام اُٹھے گا ان کا
تُو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازُو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مِری شاعری، میرا احساس
جو تِری ذات سے منسُوب تھے ان گیتوں‌ کو
مفلسی جنس بنانے پر اُتر آئی ہے
بُھوک، تیرے رُخِ رنگیں کے فسانوں‌ کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنا ہے
دیکھ اس عرصہ گہِ محنت وہ سرمایہ ہیں
میرے نغمے بھی مِرے پاس نہیں‌ رہ سکتے
تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مِرے پاس نہیں رہ سکتے
آج ان گیتوں‌ کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے​

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment