Wednesday 26 February 2014

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان، کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحۂ فرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ تِرا چہرہ بنانے لگ جائیں
ہم لکھاری بھی عجب ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اِک نام لکھیں‌ خود ہی مٹانے لگ جائیں
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدلؔ
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment