Friday, 28 February 2014

لب کشا ہیں لوگ سرکار کو کیا بولنا ہے

لب کُشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا، تلوار کو کیا بولنا ہے
بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے
مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے
اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا
پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے
مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری
اِک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے
خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد
اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے
وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے
کب، کہاں، کون سے کِردار کو کیا بولنا ہے
جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ
وہاں غالب کے طرفدار کو کیا بولنا ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment