رنگ دِکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے، سونا ہُوئے رخسار بھی
درد کے جھونکوں نے اب کے دل ہی ٹھنڈا کر دیا
آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خوں بار بھی
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دل
شوقِ آزادی لیے جاتا ہے منزل سے پرے
روکتی ہے ہر قدم آوازِ پائے یار بھی
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش تھے پردے میں دنیادار بھی
کس طرح گزرے گا ناصرؔ فرصتِ ہستی کا دن
جم گیا دیوار بن کر سایۂ دیوار بھی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment