Wednesday 26 February 2014

ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے

ہر قدم مرحلۂ دار و صلِیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے
جگمگاتے ہیں اُفق پار ستارے، لیکن
راستہ منزلِ ہستی کا مہیب آج بھی ہے
سرِ مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے
اہلِ‌ دانش نے جسے امرِ مُسَلّم جانا
اہلِ دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ہے
یہ تِری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگِ جاں کے قریب آج بھی ہے
کون جانے یہ تِرا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment