Tuesday 18 February 2014

ذرے سرکش ہوئے کہنے میں ہوائیں بھی نہیں

ذرے سرکش ہوئے، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
آ کے دیوار پہ بیٹھی تھیں کہ پھر اڑ نہ سکیں
تِتلیاں بانجھ مناظر میں نظربند ہوئیں
پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کِھنچتا گیا
نبض رکتی گئی، شاخوں کی رگیں کھلتی گئیں
ٹوٹ کر اپنی اڑانوں سے، پرندے آئے
سانپ کی آنکھیں درختوں پہ بھی اب اگنے لگیں
شاخ در شاخ الجھتی ہیں رگیں پیڑوں کی
سانپ سے دوستی، جنگل میں نہ بھٹکائے کہیں
گود لے لی ہے چٹانوں نے سمندر سے نمی
جھوٹے پھولوں کے درختوں پہ بھی خوشبوئیں ٹکیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment