Sunday 23 February 2014

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نُور نہ باتوں میں‌ تازگی
بول اے مِرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بُجھ گیا
اُگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بازار بند، راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں ‌کوئی
گلیوں میں‌ اب تو شام سے پِھرتے ہیں‌ پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بُجھی بُجھی
اے روشنئ دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا تِرے فراق میں‌ اندھیر ہو گئی
القصہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو ابتدائے غم میں‌ بڑی احتیاط کی
اب جی میں ہے کہ سرکشی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری
بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی
ناصرؔ بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment