Wednesday 26 February 2014

وہ صبح کبھی تو آئے گی

اُمید

وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پِگھلیں گے، جب دُکھ کا ساگر چَھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

جس صبح‌ کی خاطر جُگ جُگ سے، ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح‌ کے امرت کی دھن میں‌ ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں‌ روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح‌ کبھی تو آئے گی

مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں‌ کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں‌ کی عزت جب جُھوٹے سِکوں‌ میں‌ نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کچلا جائے گا، غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

بِیتیں ‌گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بیکاری کے
ٹُوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دُنیا کی بنیاد اُٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

مجبور بُڑھاپا جب سُونی راہوں‌ کی دُھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں‌ میں‌ بِھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انساں نہ جلائے جائیں گے
سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا، جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی​

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment