ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے
ان کٹوروں میں ابھی تھوڑا سا پانی اور ہے
مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں ان کو کام دو
اِک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے
خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے
خُشک پتے آنکھ میں چُبھتے ہیں کانٹوں کی طرح
دشت میں پِھرنا الگ ہے، باغبانی اور ہے
پھر وہی اُکتاہٹیں ہوں گی بدن چوپال میں
عمر کے قصے میں تھوڑی سی جوانی اور ہے
بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کر دیا
ٹُوٹے پُھوٹے گھر میں اِک لڑکی سیانی اور ہے
منور رانا
No comments:
Post a Comment