سنا تو ہے کہ نگارِ بہار راہ میں ہے
سفر بخیر کہ دشمن ہزار میں ہے
گزر بھی جا غمِ جان و غم جہاں سے کہ یہ
وہ منزلیں ہیں کہ جن کا شمار راہ میں ہے
تمیزِ رہبر و رہزن ابھی نہیں ممکن
گروہِ کجکلہاں کو کوئی خبر تو کرے
ابھی ہجوم سرِ رہگوار راہ میں ہے
نہ جانے کب کا پہنچ بھی چکا سرِ منزل
وہ شخص جس کا ہمیں انتظار راہ میں ہے
فرازؔ اگرچہ کڑی ہے زمین آتش کی
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment