Wednesday 19 February 2014

سنا تو ہے کہ نگار بہار راہ میں ہے

سنا تو ہے کہ نگارِ بہار راہ میں ہے
سفر بخیر کہ دشمن ہزار میں ہے
گزر بھی جا غمِ جان و غم جہاں سے کہ یہ
وہ منزلیں ہیں کہ جن کا شمار راہ میں ہے
تمیزِ رہبر و رہزن ابھی نہیں ممکن
ذرا ٹھہر کر، بلا کا غبار راہ میں ہے
گروہِ کجکلہاں کو کوئی خبر تو کرے
ابھی ہجوم سرِ رہگوار راہ میں ہے
نہ جانے کب کا پہنچ بھی چکا سرِ منزل
وہ شخص جس کا ہمیں انتظار راہ میں ہے
فرازؔ اگرچہ کڑی ہے زمین آتش کی
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment