Friday, 28 February 2014

وہ یار کسی شام خرابات میں آئے

وہ یار کسی شام خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں، تو کس طرح کے حالات میں آئے
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز تِرے ہاتھ میں آئے
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا
گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
اچھا ہے تنوع تِرے اندازِ سِتم میں
کچھ رنگِ مروت بھی اگر ساتھ میں آئے
اِک عمر سے جیسے نہ جنوں ہے نہ سکوں ہے
یارب! کوئی گردش مِرے حالات میں آئے
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے
کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے مِلا کر
تا اور بلندی تِرے درجات میں آئے
ساتھ اس کے فراز ایسے بھی دن رات گزارے
اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment