اور تو پاس مِرے ہِجر ميں کيا رکھا ہے
اِک تِرے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے
دل سے اربابِ وفا کا ہے بھلانا مُشکل
ہم نے ان کے تغافل کو سُنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں ميں بسا رکھے ہيں
سخت بے درد ہے تاثيرِ محبت کہ انہيں
بسترِ ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ ياديں کہ اس ياد کو ہو کر مجبور
دلِ مايوس نے مُدّت سے بُھلا رکھا ہے
کيا تامّل ہے مِرے قتل ميں اے بازوئے يار
اِک ہی وار ميں سر تَن سے جُدا رکھا ہے
حُسن کو جور سے بيگانہ نہ سمجھ، کہ اسے
يہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تيری نِسبت سے سِتم گر تِرے مايوسوں نے
دلِ حُرماں کو بھی سِينے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہيں اہلِ جہاں دردِ محبت جس کو
نام اسی کا مُضطر نے دوا رکھا ہے
نگہِ يار سے يکانِ قضا کا مشتاق
دلِ مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اسے کا انجام بھی کچھ سوچ ليا ہے حسرتؔ
تُو نے ربط ان سے جو درجہ بڑھا رکھا ہے
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment