اس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
راستے اور لگے، لغزشِ پا اور لگی
سر و پر، پیرہنِ گُل بھی سجے خوب، مگر
یار کے قامتِ زیبا پہ قبا اور لگی
کم تو پہلے بھی نہیں تھا وہ دلآزاری میں
پوچھتے پِھرتے ہیں اب ترکِ تعلق کا علاج
خوش ہو اے دل! کہ تجھے ایک بلا اور لگی
مہرباں یوں تو سدا کے تھے زمانے والے
لیکن اب کے روشِ خلقِ خدا اور لگی
کوچ کر جاتا ہے اِک دوست ہر آوازے پر
گوشِ شنوا ہے تو سُن ایک صدا اور لگی
ہر نیا عشق، نیا ذائقہ رکھتا ہے فرازؔ
آج کل پِھر تِری غزلوں کی ادا اور لگی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment