Wednesday, 19 February 2014

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے
اب تو سو جانے دے دُنیا ہمیں نیند آتی ہے
ڈُوبتے چاند ستاروں نے کہا ہے ہم سے
تم ذرا جاگتے رہنا ہمیں نیند آتی ہے
دل کی خواہش کہ تِرا راستہ دیکھا جائے
اور آنکھوں کا یہ کہنا ہمیں نیند آتی ہے
اپنی یادوں سے ہمیں اب تو رہائی دے دے
اب تو زنجیر نہ پہنا، ہمیں نیند آتی ہے
چھاؤں پاتا ہے مسافر تو ٹھہر جاتا ہے
زُلف کو ایسے نہ بکھرا ہمیں نیند آتی ہے

منور رانا

No comments:

Post a Comment