Friday 28 February 2014

ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے

ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے، تو سکوں کچھ کم ہے
رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے
اب تِرا ہِجر مسلسل ہے تو یہ بھید کھلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے
اس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا
پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں، کچھ کم ہے
راہِ دنیا سے نہیں، دل کی گزرگاہ سے آ
فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے
تُو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بَھلے وقتوں میں
یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے
آگ ہی آگ مِرے قریۂ تن میں ہے فراز
پھر بھی لگتا ہے ابھی سوزِ دروں کچھ کم ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment