Sunday 16 February 2014

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں
تِرے سروِ قامت سے اِک قدِ آدم
قیامت کے فِتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا! کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے
کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment