Friday 14 February 2014

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں
نشے میں نیند کے تارے بھی اِک دُوجے پر گرتے ہیں
تھکن رَستوں کی کہتی ہے، چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حِسی کی دُھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صُورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمّت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں مِلانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اُتر جائیں
گُلِ اُمید کی صُورت تِرے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں
دیارِ دَشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی! کہ وہ رَستے کدھر جائیں
تو کیا اے قاسمِ اشیا! یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
جو بخشش میں مِلے امجدؔ تو اس خُوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گُلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment