جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں
نشے میں نیند کے تارے بھی اِک دُوجے پر گرتے ہیں
تھکن رَستوں کی کہتی ہے، چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حِسی کی دُھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صُورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمّت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں مِلانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اُتر جائیں
گُلِ اُمید کی صُورت تِرے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں
دیارِ دَشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی! کہ وہ رَستے کدھر جائیں
تو کیا اے قاسمِ اشیا! یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
جو بخشش میں مِلے امجدؔ تو اس خُوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گُلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں
نشے میں نیند کے تارے بھی اِک دُوجے پر گرتے ہیں
تھکن رَستوں کی کہتی ہے، چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حِسی کی دُھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صُورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمّت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں مِلانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اُتر جائیں
گُلِ اُمید کی صُورت تِرے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں
دیارِ دَشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی! کہ وہ رَستے کدھر جائیں
تو کیا اے قاسمِ اشیا! یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
جو بخشش میں مِلے امجدؔ تو اس خُوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گُلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment