Wednesday, 26 February 2014

جلا کے میری نظر کا پردہ ہٹا دی رخ سے نقاب تو نے

جلا کے میری نظر کا پردہ، ہٹا دی رُخ سے نقاب تُو نے
چراغ اُٹھا کر، مِرے شبستاں میں رکھ دیا آفتاب تُو نے
فلک نظر سے تڑپ رہا ہے، زمین عشوؤں سے ہِل رہی ہے
کہاں سے پایا ہے او ستمگر! یہ مست و کافر شباب تُو نے
نسیم اوراق اُلٹ رہی ہے، نجوم مِشعل دِکھا رہے ہیں
اُفق کی سُرخی میں‌ پیش کی ہے، سحر کی زرَّیں کتاب تُو نے
میں اپنے سینے میں‌ تجھ کو رکھ لوں، اِدھر تو آ اے سحابِ رنگیں
زمیں پہ ٹپکائیں رَس کی بُوندیں، فلک پہ چھڑکی شراب تُو نے
زمیں کی جانب نظر جھکائے کل ایک شاعر یہ کہہ رہا تھا
ہر ایک ذرّے کو مُسکرا کر بنا دیا آفتاب تُو نے
جو باخبر تھے، وہ مُسکرائے، جو بے خبر تھے، وہ کچھ نہ سمجھے
اُٹھا کے بے گانہ وار آنکھیں، کیا جو مجھ سے خطاب تُو نے
تِرے نثار اے نگاہِ ساقی! تِرے تصوّر میں کیوں نہ جھوموں
کہ اپنے پرتَو کو میرے دل میں‌ بنا دیا ہے شراب تُو نے
پلٹ گئیں اشک بن کے نظریں، گِرایا جیسے ہی تُو نے پردہ
برس پڑیں سیکڑوں نگاہیں، ذرا جو اُلٹی نقاب تُو نے
نہ ہو گا تجھ سا بھی لااُبالی، خدا کی رحمت ہو جوشؔ تجھ پر
سحر کو کیا کیا ضرورتیں ہیں، کبھی نہ دیکھا یہ خواب تُو نے

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment