Friday, 14 February 2014

زیر لب یہ جو تبسم کا دیا رکھا ہے

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھُپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پُوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے
کیسے خُوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی
رزقِ غُنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے
کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہَوا، رکھا ہے
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طُوفان اُٹھا رکھا ہے
یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل میں خُوشبو کی طرح پِھرتی ہیں یادیں امجدؔ
ہم نے اس دشت کو گُلزار بنا رکھا ہے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment