Thursday, 13 February 2014

وا کردہ چشم دل صفت نقش پا ہوں میں

وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہگزر میں راہ تِری دیکھتا ہوں میں
مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب
وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا، کیا خدا ہوں میں
اے انقلابِ دہر، مِٹاتا ہے کیوں مجھے
نقشے ہزاروں مِٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں
محنت یہ کی کہ فکر کا ناخن بھی گِھس گیا
عُقدہ یہ آج تک نہ کُھلا مجھ پہ کیا ہوں میں
رُسوا ہوئے جو آپ تو میرا قصور کیا
جو کچھ کیا وہ دل نے کیا، بےخطا ہوں میں
مقتل ہے میری جاں کو وہ جلوہ گاہِ ناز
دل سے ادا یہ کہتی ہے تیری قضا ہوں میں
مانندِ سبزہ اُس چمنِ دہر میں امیرؔ
بیگانہ وار ایک کنارے پڑا ہوں میں

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment