Thursday 6 February 2014

اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے

اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے
ہم اس طرح تو بہت اعتبارؔ سوچتے تھے
جگائے رکھتی تھی راتوں کو کیسی بے چینی
کسی کی بات پہ ہم کتنی بار سوچتے تھے
وہ سامنے ہے تو پِھر کچھ بھی کہہ نہیں پاتے
نہ تھا وہ پاس، تو باتیں ہزار سوچتے تھے
اب اور کتنا ہے باقی یہ آسمان ابھی؟
ہر ایک شب تِرے اختر شُمار سوچتے تھے
اُجاڑ کُنجِ چمن میں اُداس چاندنی رات
بٹھائے رکھتی تھی، مِصرعے ہزار سوچتے تھے
سب اپنے اپنے غموں کے اسِیر تھے ساجدؔ
کہاں کسی کے لئے غمگُسار سوچتے تھے​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment