Saturday, 8 February 2014

اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا

اُداسی کا یہ پتّھر آنسوؤں سے نَم نہیں ہوتا
ہزاروں جگنوؤں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سُوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو، یہ کاغذ ذرا بھی نَم نہیں ہوتا
بِچھڑتے وقت کوئی بدگمانی دل میں آ جاتی
اسے بھی غم نہیں ہوتا مجھے بھی غم نہیں ہوتا
یہ آنسو ہیں انہیں پھولوں میں شبنم کی طرح رکھنا
غزل احساس ہے، احساس کا ماتم نہیں ہوتا

بشیر بدر 

No comments:

Post a Comment