Friday, 7 February 2014

نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں

نظر کے بھید، سب اہلِ نظر سمجھتے ہیں
جو بے خبر ہیں، اِنہیں بے خبر سمجھتے ہیں
نہ انکی چھاؤں میں برکت، نہ برگ و بار میں فیض
وہ خود نمود، جو خود کو شجر سمجھتے ہیں
انہوں نے جُھکتے ہوئے پیڑ ہی نہیں دیکھے
جو اپنے کاغذی پَھل کو ثمر سمجھتے ہیں
حصارِ جاں، در و دیوار سے الگ ہے میاں
ہم اپنےعشق کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں
کُشادہ دل کے لیے، دل بہت کُشادہ ہے
یہ میں تو کیا، مِرے دیوار و در سمجھتے ہیں
مِری حریف نہیں ہے یہ نیلگوں وُسعت
اور اس فضا کو مِرے بال و پر سمجھتے ہیں
اکیلا چھوڑنے والوں کو یہ بتائے کوئی
کہ ہم تو راہ کو بھی، ہمسفر سمجھتے ہیں
تجھے تو عِلم کے دو چار حرف لے بیٹھے
سمجھنے والے یہاں عمر بھر سمجھتے ہیں
سمجھ لیا تھا تجھے دوست ہم نے دھوکے میں
سو آج سے تجھے بارِ دِگر سمجھتے ہیں
جو آشنائی کے خنجر سے آشنا ہیں سعودؔ
وہ دستِ دوست کے سارے ہُنر سمجھتے ہیں

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment