چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے
کیسی پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے
نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے
جسم میں کھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے
مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے
کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ
ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے
لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک
دور سے دیکھو تو یہ شہر بھنور لگتا ہے
وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ
دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے
اِن دنوں عشق کی تحصیل پہ محصول بھی ہے
سوچ لے تُو بھی مجھے اہلِ نظر لگتا ہے
اک ملامت کی علامت ہے مرے چہرے پر
سنگِ دشنام ہے اور شام و سحر لگتا ہے
ذہن کی جھیل سے یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے
ایک میلا ہے جو ہر شام اِدھر لگتا ہے
کوئی شوریدۂ جاں جسم کے اندر ہے سعود
دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے
No comments:
Post a Comment