Saturday 1 February 2014

جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی

جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی
اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں مِلتا
اک عمر کا رونا ہے، دو دن کی شناسائی
اک شام وہ آئے تھے، اک رات فروزاں تھی
وہ شام نہیں لوٹی، وہ رات نہیں آئی

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment