Saturday 1 February 2014

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
عدم کو جس نے وجُود بخشا
وجُود کو پھر نمُود بخشا
نمُود کو تازگی عطا کی
عطا کی حد حشر سے ملا دی
ہر ایک ذرہ کو زندگی دی
شعور کو جس نے آگہی دی
وہ جس کا ہر شے پہ نام ہے کندہ
وہ کون ہے جس کا میں ہوں بندہ
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

یہ آسماں یہ برستا ساون
یہ لہلہاتا مہکتا گُلشن
یہ سبزہ و گُل کا نرم بستر
یہ کہکشاں کی حسِین چادر
یہ چاند سورج چمکتے تارے
حسِین قدرت کے یہ نظارے
دمکتے ہیں کس کی چاہ میں یہ
مہکتے ہیں کس کی راہ میں یہ
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

وہ نُور جس میں ہے نُور اس کا
وہ فہم جس میں شعُور اس کا
وہ آنکھ جس سے وہ دیکھتا ہے
زبان جس سے وہ بولتا ہے
جو جلوۂ نُور کِبریا ہے
تمام عالم کا آسرا ہے
زمیں پہ رحمت کا آسماں ہے
فلک پہ کس کا وہ مہماں ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

زمین ہے نہ یہ آسماں ہے
عجیب عالم عجب سماں ہے
نہاں نہیں ہے نہ وہ عیاں ہے
ہے کوئی موجود پر کہاں ہے
ادھر یقیں ہے ادھر گماں ہے
بس ایک پردہ سا درمیاں ہے
نکل رہے ہیں یہ کس کے بازو
سمٹ رہی ہے حد من و تو
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

محمدؐ مصطفٰیؐ سے پہلے
قدم کسی کے یہاں نہ پہنچے
یہاں سے بھی کچھ ذرا سا آگے
جہاں پہ جلوے ہیں لامکاں کے
جو نُطق کو ساز دے رہا ہے
نبیؐ کو آواز دے رہا ہے
شناسا لگتا ہے لہجہ جس کا
یہ کون ہے کیا ہے نام اس کا
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

یہاں میانِ خدائے بندہ
وجود ممکن نہیں کسی کا
یہاں سے مہماں کا ساتھ دینے
نبیؐ کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے
جو نُور پیکر میں ڈھل رہا ہے
یہ ہاتھ جس کا نکل رہا ہے
خدا نُما ہے کہ یہ خدا ہے
خدا نہیں ہے تو اور کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

خدایا مجھ کو معاف کر دے
نگاہ میں حق کا نُور بھر دے
یہ پردہ درمیاں اُٹھا دے
حقیقتِ مُرتضی دکھا دے
حبیبؐ کا واسطہ ہے تجھ کو
الہٰی اتنا بتا دے مجھ کو
جو تُجھ سے منسوب تیرا در ہے
تیرا ہی ہے یا علی کا گھر ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

مکاں ہے یہ کہ لا مکاں ہے
کسے پتا تیری حد کہاں ہے
کوئی نہیں اور جس سے پوچھے
نہ تجھ سے پوچھوں تو کس سے پوچھوں
گھٹا کی صورت میں لوگ گھر کے
جدارِ کعبہ کے گرد پِھر کے
یہ کس کو سجدہ گزارتے ہیں
یہ کس کو آخر پکارتے ہیں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

نِدا یہ آئی نہ بہکو اتنا
زباں کھولو ہے عِلم جتنا
وہ بسترِ نُور جس پہ سو کر
وہ ہاتھ جن پر بلند ہو کر
زمین سے میں آسماں ہُوا ہوں
ورائے وہم و گماں ہُوا ہوں
وہ اصل ہے اور اصول ہوں میں
شریکِ نُور رسولؐ ہوں میں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

وہ نُور میں جبکہ ڈھل رہا تھا
میں ساتھ کروٹ بدل رہا تھا
فلک سے جب وہ زمیں پہ آیا
میں آيا ساتھ اس کے بن کے سایا
وہ عرش پہ جب کہ مہماں تھا
وہاں پہ میں شکل میزباں تھا
کہیں پہ چھوڑا نہ ساتھ اس کا
ہے کب سے ہاتھوں میں ہاتھ اس کا
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں

محشر لکھنوی

No comments:

Post a Comment