Saturday 1 February 2014

روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا

رُوح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا
 ورنہ اُٹھنا محفلِ ہستی سے کچھ مشکل نہ تھا
 چار آنکھیں ہوتے ہی قابو میں گویا دل نہ تھا
 کہہ گزرنا ورنہ حالِ ہجر کچھ مشکل نہ تھا
 سُننے والے میرا قصہ سُن کے یوں دیتے ہیں داد
 یا تو یہ زندہ نہ تھا، یا پاس اس کے دل نہ تھا
 یہ رموزِ جذب ہیں مجنوں سے پوچھا چاہیے
 باطنِ محمل کا شاہد پردۂ محمل نہ تھا
 قتل گہ کی سیر سے قاتل چلا ہے یوں اُداس
 جیسے مرضی کے موافق کوئی بھی بِسمل نہ تھا
 طور پر موسیٰؑ کو بلوایا پئے دیدارِ حُسن
 کون کہتا ہے کہ انساں جوہرِ قابل نہ تھا
 بیٹھے جتنی دیر بالیں پر ہنسی آتی رہی
 دل لگی تھی آپ کے نزدیک دردِ دل نہ تھا
 دردِ باطن سے دہانِ زخم جو کچھ کہہ اُٹھے
 شکوۂ تقدیر تھا، وہ شکوۂ قاتل نہ تھا
 ایک ہی نالے کی قُوّت سے خُدائی ہل گئی
 اضطرابِ ہجر میں رُوحِ اثر تھا، دل نہ تھا
 زندگی بھر کی ریاضت تھا دلِ محشرؔ ضرور
 پھر بھی او ظالم نگاہِ ناز کے قابل نہ تھا

محشر لکھنوی

No comments:

Post a Comment