Saturday 1 February 2014

مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں

نوحۂ حیات

مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشرؔ ہمیں
چند دن میں ختم ہے اپنا بھی دورانِ حیات
گھٹ گیا زورِ جوانی، ہو گئے اعضا ضعیف
کون اب سر پر اُٹھائے بارِ احسانِ حیات
خیریت سے جیتے جیتے ہو گئے چالیس سال
اب کہاں وہ روز و شب کہئے جنہیں جانِ حیات
کان میں آخر صدائے "الرحیل" آنے لگی
کچھ نہ ہم سے ہو سکا تھا جو کہ شایانِ حیات
اُف رے مستئ شباب، اللہ رے طغیانئ شوق
خوب کی جی کھول کر سیرِ گلستانِ حیات
ذرّہ ذرّہ دفترِ مقصد تھا، لیکن کیا مِلا
چھان ڈالی ساری توسیعِ بیابانِ حیات
ہائے اُس دل کو سپردِ نفسِ امّارہ کیا
بدو فطرت سے تھا مضمر جس میں عرفانِ حیات
ہائے وہ دل نذر خواہشہائے بیجا کر دیا
صدر میں پیکر کے جو تھا مرتبۂ دانِ حیات
فکرِ تسخیرِ بُتاں اُس جذب سے ہوتی رہی
جو کہ تھا شیرازۂ بند جزوِ ایمانِ حیات
یہ حواسِ ظاہری اور یہ حواسِ باطنی
شُکر کے سجدے کرو جب تک ہیں مہمانِ حیات
ہو رہا ہے چشمۂ آرام مانندِ سراب
تم سمجھتے ہو ترقی پر ہے طوفانِ حیات
ڈُوبتا ہے نُور آنکھوں کا برنگِ نجمِ صُبح
اب تو آئینہ اُٹھا کر دیکھ لو شانِ حیات
ہو رہی ہے یوسفؑ بے کارواں منہ میں زباں
گر رہے ہیں دانت جو تھے رُکنِ ایوانِ حیات
ہاتھو ں کا رعشہ خبر دیتا ہے بڑھ کر متصل
چُھوٹنے ہی کو ہے کوئی دَم میں دامانِ حیات
ضُعف سے تھرّا کے دونوں پاؤں دیتے ہیں خبر
آ گیا نزدیک آخر وقتِ پایانِ حیات
ایک دن وہ تھا نمُو پر اپنی خُوش ہوتے تھے دوست
آج وہ دن ہے کہ ہم ہیں مرثیہ خوانِ حیات
عقل رکھتے ہو تو قبل از مرگ مرنا خوب ہے
محشرؔ اس دُنیا میں کب تک آخر ارمانِ حیات​

محشر لکھنوی

No comments:

Post a Comment