Saturday 1 February 2014

جسے بار بار ملے تھے تم وہ میرے سوا کوئی اور تھا

جسے بار بار مِلے تھے تم، وہ میرے سوا کوئی اور تھا
مِرے دل کو تاب نظر کہاں، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا
میں فریب خوردۂ راہِ غم، چلا سکے ساتھ قدم قدم
مِرے ہمسفر نہیں جانتے، مِرا راستہ کوئی اور تھا
گل تازہ یہ تِرا رنگ و بُو، ہَوا سب سے بڑھ کے تِرا عدو
کسی اور نے تجھے چن لیا، تجھے چاہتا کوئی اور تھا
سبھی ربط بے سر و پا ہوئے، نہ مِلے نہ تجھ سے جدا ہوئے
نہ الگ تھا تیرا جہاں کبھی، نہ مِرا خدا کوئی اور تھا
کھلا ہمدموں پہ راز کب کہ میں ایک عمر سے جاں بلب
مجھے روز مِلتے تھے لوگ سب، مگر آشنا کوئی اور تھا
کبھی روشنی مجھے کی عطا، کبھی سائے ساتھ لگا دیے
کبھی سب چراغ بجھا دئیے، وہ تمہی تھے یا کوئی اور تھا

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment