دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اڑا لے جائے
کون لایا تِری محفل میں, ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تِری محفل سے اٹھا لے جائے
اور سے اور ہوئے جاتے ہیں معیارِ وفا
جانے کب ابھرے تِری یاد کا ڈوبا ہوا چاند
جانے کب دھیان کوئی ہم کو اڑا لے جائے
یہی آوارگئ دل ہے، تو منزل معلوم
جو بھی آئے تِری باتوں میں لگا لے جائے
دشتِ غربت میں تمہیں کون پکارے گا فراز
چل پڑو خود ہی جِدھر دل کی صدا لے جائے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment