Saturday, 1 February 2014

کبھی گریباں کے تار گنتے کبھی صلیبوں پہ جان دیتے

کبھی گریباں کے تار گنتے، کبھی صلیبوں پہ جان دیتے
گزر گئی زندگی ہماری، سدا یہی امتحان دیتے
بوقت شب خوں تمام بستی پہ خوف طاری تھا قاتلوں کا
سکوت شب کے اجاڑ گنبد میں ہم کہاں تک اذان دیتے
میں کس نگر کی ہوا سے پوچھوں میں کون صحرا کی خاک چھانوں
بچھڑنے والے کہیں تو اپنا سراغ رکھتے، نشان دیتے
ہمارے لفظوں سے نُطق چھینا ہے اپنی محرومیوں نے ورنہ
سخنورو! ہم بھی اپنی بستی کے پتھروں کو زبان دیتے
سزا سنانے سے پیشتر منصفوں سے پَل بھر کو جو اذن ملتا
تو ہم بھی جرمِ انا کے حق میں کوئی ادھورا بیان دیتے
عداوتوں کے عذاب سورج نے اتنی مہلت نہ دی کہ محسنؔ
ہم اپنی جلتی زمیں کے سر پر کوئی بگولہ ہی تان دیتے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment