خود اپنے سائے پہ بارِ گراں تھے ہم جیسے
کھلا کہ شہر میں بس رائیگاں تھے ہم جیسے
ہمیں سے شب کے اندھیرے لپٹ کے سوئے تھے
کھلی جو دُھوپ تو خُود بے اماں تھے ہم جیسے
زمیں کے تن پہ ہمارے لہو کی چادر تھی
ہمارے پاؤں تلے موج مارتا تھا فرات
یہ اور بات کہ تشنہ دہاں تھے ہم جیسے
یہ تاج و تخت رہے اپنی ٹھوکروں میں سدا
کہ سرفرازِ صلیب و سناں تھے ہم جیسے
ہمارے دل میں اترتی تھیں آفتیں محسن
ازل سے شہر میں خالی مکاں تھے ہم جیسے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment