Saturday 1 February 2014

خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا

خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اُس کا اسیر میں بھی نہ تھا
بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا
نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
وہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھا
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی 
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر میں بھی نہ تھا
میں برگِ آخرِ شہرِ خزاں تھا، خاک ہُوا
کُھلا کہ موسمِ گُل کا سفیر میں بھی نہ تھا
میں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑا رکھو
چلا جو درد کا اِک اور تیر میں بھی نہ تھا
ستم کے عہد میں چپ چاپ جی رہا ہوں فراز
سو دوسروں کی طرح باضمیر میں بھی نہ تھا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment