خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اُس کا اسیر میں بھی نہ تھا
بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا
نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر میں بھی نہ تھا
میں برگِ آخرِ شہرِ خزاں تھا، خاک ہُوا
کُھلا کہ موسمِ گُل کا سفیر میں بھی نہ تھا
میں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑا رکھو
چلا جو درد کا اِک اور تیر میں بھی نہ تھا
ستم کے عہد میں چپ چاپ جی رہا ہوں فراز
سو دوسروں کی طرح باضمیر میں بھی نہ تھا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment