Saturday, 1 February 2014

محاصرہ میرے غنِیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

محاصرہ 

میرے غنِیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گِرد لشکری اس کے
فصیلِ شہر کے ہر بُرج، ہر مینارے پر
کماں بدست سِتادہ ہیں عسکری اس کے
وہ برقِ لہر، بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بِچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جُوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن، اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امید ِلطف پہ ایوانِ کَج کُلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون، آس پاس تو دیکھو
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سِکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اِک نیا سورج تراش لاتی ہے
تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوۂ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچِ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment