Saturday 1 February 2014

آسودگئ شوق کا ساماں نہ کر سکے

آسودگئ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مِری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
تم نے مسرتوں کے خزانے لُٹا دیے
لیکن علاجِ تنگئ داماں نہ کر سکے
آنکھوں سے ٹُوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینتِ داماں نہ کر سکے
شائستۂ نشاطِ ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہُوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے
اِک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیازِ ساحل و طوفاں نہ کر سکے
ہم جانِ رنگ و بو ہیں گلستاں ہمِیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے
کچھ اس طرح گزر گیا طوفانِ رنگ و بُو
غُنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے
ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے ساتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے
قابلؔ فراقِ دوست میں دل بُجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے

 قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment