Saturday 8 February 2014

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پِھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چُپکے چُپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ مِلائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے مِلا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اُسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سے لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں سُنا کرو، جو سُنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حُسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بَن سنور کے کہیں چلوں مِرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اُداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment