Saturday 8 February 2014

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھے جسے دن رات ہواؤں میں
تم چھت پر نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا
یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں
اس شہر میں اک لڑکی بالکل ہے غزل جیسی
بجلی سی گھٹاؤں میں خوشبو سی ہواؤں میں
موسم کا اشارہ ہے خوش رہنے دو بچوں کو
معصوم محبت ہے پھولوں کی خطاؤں میں
ہم چاند ستاروں کی راہوں کے مسافر ہیں
ہر رات چھمکتے ہیں تاریک خلاؤں میں
بھگوان ہی بھیجیں گے چاول سے بھری تھالی
مظلوم پرندوں کی معصوم سبھاؤں میں
دادا بڑے بھولے تھے سب سے یہی کہتے تھے
کچھ زہر بھی ہوتا ہے انگریزی دواؤں میں

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment