حوصلہ چھوڑ گئی راہگزر، آخرِ کار
رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر، آخر کار
کوہ اسود نے بہت راستے روکے، لیکن
شرق سے پُھوٹ پڑا چشمۂ زر، آخر کار
اس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی
تھم کے رہ جائیگی اک روز لہو کی گردش
ختم ہو جائے گا اندر بھی سفر، آخر کار
زرد ہو جائیں گے پتے بھی گلابوں کی طرح
ایک ہو جائیں گے سب عیب و ہُنر، آخر کار
تم نہیں جانتے، اس رنج کو ہم جانتے ہیں
راکھ کر جائے گا تم کو یہ شرر، آخر کار
ٹُوٹ جاتا ہے کسی شخص کے مانند سعودؔ
قیدِ تنہائی میں رہتا ہوا گھر، آخر کار
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment