Friday, 7 February 2014

وہ دن گزر گئے وہ کیفیت گزرتی نہیں

وہ دن گزر گئے، وہ کیفیت گزرتی نہیں 
عجیب دُھوپ ہے دیوار سے اُترتی نہیں 
ہرے درخت سے لِپٹی ہوئی یہ کاسنی بیل 
اُداس ہوتی ہے، لیکن اُداس کرتی نہیں 
ہوائے دردِ محبت کی تمکنت بھی تو دیکھ
کہ مُشتِ خاک ہے لیکن کبھی بِکھرتی نہیں 
تُو اس عذاب سے واقف نہیں کہ عشق کی آگ
تمام عمر جلا کر بھی راکھ کرتی نہیں 
کوئی دِلاسہ مِلا ہے تو رو دیا ہوں سعودؔ
یہ لمسِ حرف نہ ہوتا تو آنکھ بھرتی نہیں 

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment