Tuesday 4 February 2014

تیور جبِین یار کے مبہم نہیں رہے

تیور جبِینِ یار کے مُبہم نہیں رہے
طے ہو گیا کہ آج ہم باہم نہیں رہے
وہ رات میری عُمر میں شامل نہ ہو سکی
جس رات میرے ساتھ تِرے غم نہیں رہے
پہلے تو موسموں کو مِری احتیاج تھی
رُخصت ہُوا تو شوق کے موسم نہیں رہے
میں راہِ انقلاب سے ڈرتا نہیں، مگر
مٹی پہ میرے پاؤں ابھی جَم نہیں رہے
سوچا کہ میں نے اَوس بھی دیکھی نہیں کبھی
شب نے کہا کہ نَین کوئی نَم نہیں رہے
دیکھا ہے اور شخص کو اپنے لباس میں
گویا کہ اپنے آپ کے بھی ہم نہیں رہے
دستِ دُعا تو بھر ہی گیا خُون سے، مگر
ناصرؔ یہ میرے اشک ابھی تھم نہیں رہے

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment