Tuesday 4 February 2014

شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے

شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے
کُو بہ کُو پھیلے مِری رُسوائیوں کے تذکرے
بُھولتا ہی جا رہا ہُوں میں کہانی کی طرح
وہ فریبِ آرزو، رعنائیوں کے تذکرے
زندگی میں بڑھ گئی ہیں محفلوں کی رونقیں
دل پہ کندہ ہیں مگر تنہائیوں کے تذکرے
عاشقو! پِھر سوچ لو، اِن راستوں میں آج بھی
گُونجتے ہیں چار سُو ہرجائیوں کے تذکرے
جو کبھی بارِ تعلق سے گریزاں تھی، وہی
سُن رہی ہے غور سے شہنائیوں کے تذکرے
ساٹھ برسوں بعد بھی بوڑھی زبانوں پر مِلے
حِرص کے مارے ہوئے بلوائیوں کے تذکرے
بیچتے ہیں اس عوامی دَور کے سب رہنُما
عرضیوں کی قبر پہ شنوائیوں کے تذکرے
بے سبب ہے آج پِھر ناصرؔ تمہارا رُوٹھنا
بے اِرادہ چِھڑ گئے سودائیوں کے تذکرے

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment