Tuesday, 4 February 2014

لہجہ اداس آنکھ میں پرچھائیں زرد سی

لہجہ اُداس، آنکھ میں پرچھائیں زرد سی
جیسے جَمی ہو وقت کی خاموش گَرد سی
میں تو شبِ فراق سے ہارا نہ تھا، مگر
پُھولوں پہ اَوس پڑ گئی شعلہ نبرد سی
اس کو مِرے وطن کا پتا چل گیا ہے آج
صورت جو اُس نے دیکھ لی صحرا نورد سی
مقتل پہ سب مذمتیں آخر تھیں بے جواز
منظر تھا دِل خراش تو آنکھیں بھی سرد سی
لاتا پِھرے جواز وہ جتنے بھی ڈُھونڈ کر
اُوپر ہے ظُلمتوں کی کُھلی ایک فرد سی
عورت کا سا گداز، تو دھڑکن بھی جاندار
اِس دل پہ مُردنی ہے مگر بُوڑھے مرد سی
مختل ہوئے حواس تو عُقدہ یہی کُھلا
مِلتی ہے زندگی یہاں دُشمن نبرد سی
ناصرؔ یہ بے ثباتیاں ٹھہریں بلائے جاں
اِک لہر مُضطرب ہے کوئی دل میں درد سی

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment