Tuesday, 4 February 2014

بھرا پڑا ہے یہاں پر نصاب لفظوں سے

بھرا پڑا ہے یہاں پر نِصاب لفظوں سے
لِکھا ہُوا ہے مگر سب خراب لفظوں سے
بَھلے شِکن ہی پڑی تھی ہر ایک صفحے پر
کوئی پِلا تو گیا ہے شراب لفظوں سے
سوال دل سے کِیا تھا وفا شعاروں نے
مگر شرر نے دِیا تھا جواب لفظوں سے
پلٹ کے دیکھ پِگھلتا ہُوا غُبارِ دل
جسے وفا نے بنایا سراب لفظوں سے
اُلجھ گئی ہے نظر آج بھی کتابوں میں
اُٹھا نہیں ہے ذرا سا نقاب لفظوں سے
صفِ بُتاں نے کوئی دِیدہ وَر تراشا ہے
کہ ڈُھونڈنا ہے ہمیں پِھر گلاب لفظوں سے
مِرا ہُنر ہی مِری آنکھ میں چُبھا ناصرؔ
گِلہ نہیں ہے مجھے پُرعذاب لفظوں سے

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment