وہ خُود بھی پیاس کے سُوکھے نگر میں بستا ہے
جو اَبر بَن کے مِرے دشت پر برستا ہے
چھلک نہ جائے یہ پیمانہ اس کشاکش میں
کہ خُون موج میں ہے اور دل شکستہ ہے
نظر اٹھاؤں تو منزل کا فاصلہ ہے وہی
یہ زہر کس نے اُنڈیلا ہے میری نَس نَس میں
یہ کون ہے جو مجھے انگ انگ ڈستا ہے
مِرا کسی سے تعلق نہیں تو پھر عامرؔ
یہ کس کا درد مِری دھڑکنوں میں بستا ہے
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment